جو بھی ہونا تھا ہو چکا، اب کیا
پُرسشِ حال ہے، نہ رسمِ تپاک
ہو گیا ہوں بہت مقرب کیا
ہو رہا ہوں یہاں وہاں رُو پوش
بستیاں ہو گئیں مہذب کیا
خود سے کرنا ہے سُوزِ فن کا سخن
ہیں مرے داغ سب مرتب کیا
حالِ شعلہ وَرِ لبِ فریاد
راکھ بھی ہو سکے ترے لب کیا
وہ جو ہے، ہے عجب ہَوَس انگیز
ہے بہت پاک اس کا قالب کیا
کیا کہوں رزقِ اولِ شب کی
ہے مرا رزقِ آخرِ شب کیا
اب تو اپنے سے دور پار ہوں میں
تو اگر مل گیا مجھے، تب کیا
وار کاری ہے ساتھیو، یارو!
لو سنبھالو! چلے گئے سب کیا
چاہئے دفترِ ہمیشۂ بُود
یعنی ہونا ہے آخرش کب کیا
دل کو کرنا ہے زندگی دو پل
اس کا ہے نسخۂ مجرب کیا
کوئی معنی نہیں کسی شے کے
اور اگر ہوں بھی، تو میاں تب کیا
جونؔ، اور خون تھوکنے والے!
اب دکھانا تجھے ہے کرتب کیا
جون ایلیا