اس پر ستم یہ ہے اسے یاد آ رہا ہوں میں
ہاں اُس کے نام میں نے کوئی خط نہیں لکھا
کیا اُس کو یہ لکھوں کہ لہو تھوکتا ہوں میں
کرب غم شعور کا درماں نہیں شراب
یہ زہر ہےاثر ہے اسے پی چکا ہوں میں
اے زندگی بتا کہ سرِ جادہ ءِ شتاب
یہ کون کھو گیا ہے کسے ڈھونڈتا ہوں میں
اے وحشتو! مجھے اسی وادی میں لے چلو
یہ کون لوگ ہیں، یہ کہاں آ گیا ہوں میں
شعر و شعور اور یہ شہرِ شمار شور
بس ایک قرض ہے جو ادا کر رہا ہوں میں
یہ تلخیاں یہ زخم، یہ ناکامیاں یہ غم
یہ کیا ستم کہ اب بھی ترا مدعا ہوں میں
میں نے غم حیات میں تجھ کو بھلا دیا
حسن وفا شعار، بہت بے وفا ہوں میں
عشق ایک سچ تھا تجھ سے جو بولا نہیں کبھی
عشق اب وہ جھوٹ ہے جو بہت بولتا ہوں میں
معصوم کس قدر تھا میں آغازِ عشق میں
اکثر تو اس کے سامنے شرما گیا ہوں میں
دنیا میرے ہجوم کی آشوب گاہ ہے
اور اپنے اس ہجوم میں تنہا کھڑا ہوں میں
وہ اہلِ شہر کون تھے وہ شہر تھا کہاں
ان اہلِ شہر میں سے ہوں اس شہر کا ہوں میں