کوئے خواہش میں خم بہ خم ٹھیروں

کوئے خواہش میں خم بہ خم ٹھیروں
دم نہ لوں اور دم بہ دم ٹھیروں
فرصتِ یک نفس نہیں ورنہ
میں تو خود میں قدم قدم ٹھیروں
دورِ مستی میں جام ٹھیرے تو
میں جوہوں، میری جاں! میں جم ٹھیروں
آرزو ہے کہ دشتِ وحشت میں
اے غزالہ! میں تیرا رم ٹھیروں
میں ہوں ایک ایسی راہ میں کہ جہاں
نہ چلوں اور بہت ہی کم ٹھیروں
ساری دنیا کے غم ہیں غم میرے
میں بھی آخر کسی کا غم ٹھیروں
اک ہوس ہے کہ تیرے لب پر میں
اپنی ہی جان کی قسم ٹھیروں
صفحئہِ ذات پر رقم ہو حیات
تُو دوات اور میں قلم ٹھیروں
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *