میں بے حساب سودو زیاں، کیا کروں بھلا

میں بے حساب سودو زیاں، کیا کروں بھلا
کوئی یقین ہے نہ گماں، کیا کروں بھلا
منزل جو اپنے دل کی تھی، خود دل میں ہی کہیں
دل بھی پہنچ سکا نہ وہاں ، کیا کروں بھلا
صورت وصال کی ہے نہ حالت فراق کی
ہو جیسے آگ اور دھواں ، کیا کروں بھلا
میری دکانِ ذات پہ بیٹھا ہے جانے کون
اور میں کھڑا ہوں پیشِ دُکاں، کیا کروں بھلا
زخموں کا میرے اور ہی اک رنگ ہے جسے
زخموں میں بھی ملی نہ اماں ، کیا کروں بھلا
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *