جانے کہاں سے آئے ہیں جانے کہاں کے تھے
اے جانِ داستاں! تجھے آیا کبھی خیال
وہ لوگ کیا ہوئے جو تری داستاں کے تھے
ہم تیرے آستاں پہ یہ کہنے کو آئے ہیں
وہ خاک ہو گئے جو ترے آستاں کے تھے
مل کے تپاک سے نہ ہمیں کیجیے اُداس
خاطر نہ کیجئے کبھی ہم بھی یہاں کے تھے
کیا پوچھتے ہو نام و نشانِ مسافراں
ہندوستاں میں آئے ہیں ہندوستاں کے تھے
اب خاک اُڑ رہی ہے یہاں انتظار کی
اے دل یہ بام و دَر کسی جانِ جہاں کے تھے
ہم کس کو دیں بھلا در و دیوار کا حساب
یہ ہم جو ہیں، زمیں کے نہ تھے آسماں کے تھے
ہم سے چھِنا ہے ناف پیالہ تیرا میاں
گویا ازل سے ہم صفِ لب تشنگاں کے تھے
ہم کو حقیقتوں نے کیا ہے خراب و خوار
ہم خواب خواب اور گمان گماں کے تھے
صد یاد یاد جون وہ ہنگامہ دل کے جب
ہم ایک گام کے نہ تھے پر ہفت خواں کے تھے
وہ رشتہ ہائے ذات جو برباد ہو گئے
میرے گماں کے تھے کہ تمہارے گماں کے تھے
جون ایلیا