شہر آباد دل کی وحشت کے
اے خوشا حال جب کہ تھے معنی
حالتِ حال بے نہایت کے
حرم و دیر کی سیاست ہے
اور سب فیصلے ہیں نفرت کے
یار کل صبح آئے ہم کو نظر
آدمی کچھ عجیب صورت کے
ان دنوں حال شہر کا ہے عجب
لوگ مارے ہوئے ہیں دہشت کے
جشن اک بے ضرورتی کا ہے
ہم نہیں ہیں کسی ضرورت کے
اب کہاں وہ ترا پیالہء ناف
ہائے یہ دن نشے کی ہجرت کے
یعنی جو کچھ ہے اک تماشا ہے
یعنی سب کھیل ہیں مشیت کے
میں ہوا نوش ہوں سرابوں کا
عیش ہیں تشنگی کی لذت کے
جون ایلیا