کچھ دن کے بعد خود سے سفر چاہتا ہے دل
دریائے خواب ہے کہ رواں ہے ہمیشہ میں
اور اب کسی بھی موج میں گھر چاہتا ہے دل
فتنہ تھیں سر کا دانش و دیوانگی بہم
اب تو حساب فہمی سر چاہتا ہے دل
جانے یہ حرص عقل ہے یا خواہش جنوں
دیوار میں نگاہ کی در چاہتا ہے دل
اس کہنہ شہر گاہ وصال و فراق سے
اب ایک بادِ تند گزر چاہتا ہے دل
سن لوں گا اس کی بات کہ اک بات تو ہوئی
تیرے سوا کسی کو اگر چاہتا ہے دل
اب تو ہر اعتبار یقین و گماں سے جون
آشوب بے دلی میں سفر چاہتا ہے دل
اب اس کو اپنی آن کی اک آن چاہیے
ترک حساب شام و سحر چاہتا ہے دل
کوئی خبر نہیں ہے لب ہست و بود پر
بس اب یہی تو ایک خبر چاہتا ہے دل
ہاں یہ جہاں نہیں دل و دانش کا ہاں نہیں
اب اس جہاں کو زیر و زبر چاہتا ہے دل
جون ایلیا