یوں دور دور دل سے ہو ہو کے دل نشیں بھی

یوں دور دور دل سے ہو ہو کے دل نشیں بھی
ہیں تو اسی جہاں میں ملتے نہیں کہیں بھی

کم ایک قبر سے ہے مجھ کو یہ کل زمیں بھی
مر رہنے کا ٹھکانا ملتا نہیں کہیں بھی

طوفان بحر خود ہیں بڑھتی امنگیں دل کی
کشتی قرار لے گی ہو کر نہ تہہ نشیں بھی

امکاں کی حد کے اندر کوشش کی حد سے باہر
دل جس کو ڈھونڈھتا ہے وہ ہے بھی اور نہیں بھی

امید دل کی فطرت ہے بے نیاز تسکیں
کم ہو نہ بے قراری آئے اگر یقیں بھی

بیم و رجا سے دل میں دریا کا جزر و مد ہے
ساحل نواز موجیں آئیں بھی اور گئیں بھی

یہ ملتفت نگاہیں شیوہ وغا ہے جن کا
ہیں موجب سکوں بھی ہنگامہ آفریں بھی

کر پہلے دل پہ قابو جامے کی پھر خبر لے
دامن بچانے والے جاتی ہے آستیں بھی

خطرے میں جان جس سے وہ جان سے بھی پیارا
رنگیں عذار شعلہ قاتل بھی ہے حسیں بھی

سرگشتۂ محبت دار محن میں پھر کر
دیکھ آئے گوشہ گوشہ راحت نہیں کہیں بھی

نیرنگیٔ تلون لاحل سا اک معمہ
سمجھے جو تیرے تیور پڑھ لے خط جبیں بھی

شان غرور ان کی تصویر اک رخی ہے
اور آرزو کی نظریں شیدا بھی ہیں حسیں بھی

آرزو لکھنوی

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *