مرا مرنا بھی تو میری خوشی سے ہو نہیں سکتا
کیا ہے وعدہ فردا انہوں نے دیکھئے کیا ہو
یہاں صبر و تحمل آج ہی سے ہو نہیں سکتا
چمن میں ناز بلبل نے کیا جب اپنے نالے پر
چٹک کر غنچہ بولا کیا کسی سے ہو نہیں سکتا
نہ رونا ہے طریقہ کا نہ ہنسنا ہے سلیقےکا
پریشانی میں کوئی کا جی سے ہو نہیں سکتا
ہوا ہوں اس قدر محبوب عرض مدعا کر کے
اب تو عذر بھی شرمندگی سے ہو نہیں سکتا
خدا جب دوست ہے اے داغ کیا دشمن سے اندیشہ
ہمارا کچھ کسی کی دشمنی سے ہو نہیں سکتا
داغ دہلوی