اپنے اپنے بتوں میں

اپنے اپنے بتوں میں قید

ہم سب جو اپنے اپنے بتوں میں قید ہیں
صبح سے لے کر شام تک
چلچلاتی دھوپ اور سنسناتی تھکن میں
اور شام سے لے کر صبح تک سرد یخ بستہ اندھیروں میں
روح اور بدن کی خواہشات کے ہاتھوں
چُر مراتے ہوئے
آرام دہ اور خواب ناک، خواب گاہوں، آراستہ و پیراستہ دفاتر
اور سبک خرام کاروں میں بے چینی اور کشمکش سے کروٹیں بدلتے
بیٹھتے، اٹھتے اور رُک رُک کے چلتے ہوئے
ناکردہ گناہوں کی پاداش میں
قید و بند اور مشقتیں جھیلتے ہوئے
اور نت نئی دہشت کے اسیر
چاہنے اور چاہے جانے کی جبلّتوں کے جرم میں
نیلام ہوتے ہوئے ہم سب
ہم سب جو اپنے اپنے بتوں میں قید ہیں
اور ہم سب جن کے لئے اب اس کے سوا کوئی راستہ نہیں
کہ بس جیسے تیسے زندگی طے کرتے چلے جائیں
شکستہ لبادوں کی سمیٹ کر
اور تمام بے راہروی اور گمراہی
اپنے عقیدوں میں ٹھونس کر
خوف کے پھیلتے اور مسکراتے سایوں کے ہمراہ
جو بھی سائبان نظر آئے پناہ لے لیں
سوچنے اور کچھ نہ سوچنے کی
سفّاکیوں کے درمیان
جو بھی گمان نظر آئے تھام لیں
اور اسے اپنے پاس رکھ لیں
اور پھر اسے اور اپنے آپ کو کبھی غور سے نہ دیکھیں
ہم جو اپنے اپنے بتوں میں قید ہیں

فرحت عباس شاہ

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *