اپنی تمام تر دانش سمیت

اپنی تمام تر دانش سمیت
پہلی سڑک،
پہلی گلی،
پہلا گھر،
ایک دانش کدہ تھا
جس میں ایک دھیمے لہجے میں بات کرنے والا
اپنی تمام تر دانش
اور حکمت سمیت سویا ہوا تھا
میں نے اسے جگانے کی کوشش کی،
وہ نیم بیدار ہوا
اور کہا
میں عظیم ہوں،
ماحول ناموافق ہے،
آؤ سو جائیں
ساتھ والے کمرے سے
کچھ اور نیند میں ڈوبی ہوئی آوازیں آئیں
بہت سارے لوگ
بیک وقت
اپنی اپنی آواز بلند کرنے کی فکر میں تھے
ہر ایک یہی کہہ رہا تھا
میں عظیم ہوں
اور بس میں ہی ہوں
اور یہاں کچھ بھی اچھا نہیں
ایک نے کہا
یہ لوگ اچھے نہیں
ایک نے کہا
یہ شعر اچھا نہیں
ایک نے کہا
یہ زمین اچھی نہیں
ایک نے کہا
یہ کائنات اچھی نہیں
ایک نے کہا
یہ خدا اچھا نہیں
سب نے مل کے کہا
آؤ سب مل کے اپنی اپنی دکان چمکائیں
آؤ سب مل کے سو جائیں
یا بس، اپنا اپنا حصہ لے کے خاموش ہو جائیں
انہوں نے کہا
اور ایک ایک کر کے سونے لگے
جو پہلے سو جاتا ، دوسرا اس پر ہنستا
اور اس کے نتھنوں میں تنکے چبھوتا
اور لطف لیتا
سونے والا تھوڑا کسمساتا
دو چار ننگی گالیاں دیتا
اور دوبارہ سو جاتا
پورے کا پورا محلّہ ہی ایسا تھا
جو مختلف تھے
بس اتنے، کہ دوسروں کو کہتے
جاگ جاؤ اور خود فوراً ہی اونگھ جاتے
کیسے لوگ تھے
میں تھوڑا قریب گیا
لیکن زیادہ قریب نہ جا سکا
میں نے ڈھونڈنا چاہا
لیکن وہاں سرابی ہوتی تو ملتی
اور اگر سرابی ہوتی
تو سب سو نہ رہے ہوتے
بے قرار ہوتے، بے چین ہوتے
مارے مارے پھرتے
کیونکہ جہاں سرابی ہوتی ہے
وہاں نیندیں بھلا کب ہوتی ہیں
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *