اپنی وفا کا قیدی

اپنی وفا کا قیدی
میں خود سے اپنی وفا کا قیدی
انا پرستی کے موسموں میں
سمندروں کی ہوا کا قیدی
کِسے بتاؤں کہ کتنی زہریلی میری تنہائی
کون جانے
نہ کوئی دیوار ہے
جو میرے سوال سُن کر
جواب اُگلے
نا کوئی در ہے
کہ جو کسی شب
کسی کے آنے کا اَدھ ادھورا گمان بخشے
کِسے بتاؤں کہ اپنی تاریک گھاٹیوں میں بھٹک گیا ہوں
کِسے بتاؤں کہ تھک گیا ہوں
میں تھک گیا ہوں تو سوچتا ہوں
کوئی تو مجھ کو ستارہ بن کے نشانِ منزل کی روشنی دے
کوئی تو میری بھی آرزوؤں کا چاند ٹھہرے
میں جس کی آنکھوں پہ گیت لکھوں
میں جس کے ہونٹوں کو گنگناؤں
میں جس کے ہاتھوں کو چُوم کر
اپنی بند آنکھوں سے دیر تک یوں لگائے رکھوں
کہ جیسے بینائی مِل رہی ہو
مگر میں دستِ دُعا کا قیدی
میں لفظ لیکن صدا کا قیدی
اَنا پرستی کے موسموں میں
سمندروں کی ہوا کا قیدی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – آنکھوں کے پار چاند)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *