آدھے آدھے جو بھی کیے تھے سارے کام فضول گئے

آدھے آدھے جو بھی کیے تھے سارے کام فضول گئے
رات ہوئی تو یاد آئے تم صبح ہوئی تو بھول گئے
یاد ہے اس دن دونوں مل کر کتنی دیر ہنسے تھے جب
میں نے جھوٹی تعریفیں کیں تم دانستہ پھول گئے
جن رستوں پر خوشی خوشی ہم گھنٹوں تیرے ساتھ چلے
تیرے بعد ہم ان رستوں سے ساری عمر ملول گئے
بارش اور تمہارا غم مشروط ہوا ہے مدت سے
دور کہیں پر بادل برسے آنکھ میں آنسو جھول گئے
درد کا اور بہار کا فرحت کتنا گہرا ناطہ ہے
دل کا ایک بھی زخم جھڑا تو شاخ کے سارے پھول گئے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اک بار کہو تم میرے ہو)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *