پلکوں ہی حیا رہتی عجب حُسنِ ادا سے
اکبرؑ کی طرف دیکھ نہ پاتی تھی حیا سے
یکجا ہوا یوں حُسن بھی چہرے پہ سمٹ کر
ہر دیکھنے والا اسے تکتا تھا پلٹ کر
رخساروں پہ پڑتا تھا کسی نور کا ہالہ
پیشانی پہ شرمائے تھا سورج کا اجالا
قدموں میں بچھا کرتی تھیں پریوں کی نگاہیں
نعلین کے بوسے کو ترس جاتی تھیں راہیں
چلتے تھے تو لگتا تھا دعا ساتھ چلی ہے
اور زیل پہ بیٹھے نظر آتے کہ علیؑ ہے
سینہ تھا کہ مردانہ وجاہت کا نمونہ
بازو تھے کہ عباس کی طاقت کا نمونہ
تھی چاند کے جوبن سے بنی اس کی جوانی
ایسے تو نہ کہتے تھے محمدؐ کی نشانی
فرحت عباس شاہ