ازل کے دن سے خطا کی تخلیق ہو گئی ہے

ازل کے دن سے خطا کی تخلیق ہو گئی ہے
خدا کے ہاتھوں خدا کی تخلیق ہو گئی ہے
یہ معجزہ ہے یا مظہر موت کی نمو ہے
دئیے کے ہاتھوں ہوا کی تخلیق ہو گئی ہے
اسے پتہ تھا کہ مارنا ہی پڑے گا ہم کو
وگرنہ کیسے قضا کی تخلیق ہو گئی ہے
ہمارے جیسے کبھی نہ نکلیں اذیتوں سے
اسی لیے تو وفا کی تخلیق ہو گئی ہے
نئی نئی خوشبوئیں سی تھیں اسکے تن بدن میں
کہ جیسے میری دعا کی تخلیق ہو گئی ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – مرے ویران کمرے میں)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *