جب شہر میں ہر ایک کو اپنی پڑی رہی
گزرے ہزاروں قافلے راہ قبول سے
اک آرزو کہیں پہ اکیلی کھڑی رہی
ورنہ تو بھول بھال چکے ہوتے اب تلک
وہ تو ترے خیال کی طاقت بڑی رہی
جانے وہ معجزہ تھا محبت تھی یا جنوں
صدیوں نظر سکوت نظر سے لڑی رہی
لکھا مورخوں نے کسی کربلا کے بعد
نوک سناں کے سینے میں ہمت گڑی رہی
فرحت عباس شاہ