رات کے دامن میں اک جگنو ہنسا
تیرے رونے سے زمانے رو پڑے
ہنس پڑا سارا جہاں جب تُو ہنسا
ہر عمل ردِ عمل میں قید ہے
رو پڑا صیّاد جب آ ہُو ہنسا
یا معّطر مسکراہٹ تھی یا وہ
لے کے ہونٹوں میں کوئی خوشبو ہنسا
جدتیں کچھ اور بھی پگھلا گئیں
ہائے کس آتش سے شعلہ رُو ہنسا
فرحت عباس شاہ