سائیاں درد محبتوں والے روگ ہوئے ہیں
لیکن پھر بھی
دل تاریک گپھا ہے اب تک
جب تک آتش بھڑک نہیں اٹھتی شعلے سے
سُلگ سُلگ کر راکھ میں ڈھلتے جائیں گے
پگھل پگھل کر خاموشی سے
گم سم جلتے جائیں گے
چہرہ چہرہ بٹے ہوئے ہیں خواب
ادھورے خواب
ابھی کچھ اور بھی بٹنے اور بکھرنے کو تیار پڑے ہیں شاید
دروازوں سے باہر آ کر
تلوے
رستوں کو چھالے پہناتے ہیں تو
کیوں چھپتی ہے منزل ڈر کر اور بھی دور کیوں ہو جاتی ہے
اشک چمکتے ہیں
تو چاند ستارے کیوں بجھنے لگتے ہیں
اُجیارے کیوں اور سمٹنے لگتے ہیں
جب خاموشی کُرلاتی ہے تو
شور کیوں ہٹنے لگتے ہیں
سائے کیوں گھٹنے لگتے ہیں
او حکمت کے کُل
اوّل آخر سب کچھ سائیاں
درد محبتوں والے روگ ہوئے ہیں پھر کیوں
دل تاریک گُپھا ہے اب تک
چاروں سمت خلا ہے اب تک
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دکھ بولتے ہیں)