اسے میں نے بھلا ڈالا
نئے دن کی توجہ میں
نئی ٹھوکر کے صدمے سے
نئی خواہش کی چوکھٹ پر
اسے میں نے بھلا ڈالا
مرے اس شہر کی سڑکوں پہ جتنی بھیڑ ہے
جتنا ہجوم مضطرب ہے
اپنی اپنی سمت کے بے نام دھوکے میں
بھلا کیسے کسی کو یاد رکھنے دے
میں اٹھا تو مرے کندھوں پہ میرے پیٹ نے پاؤں جمائے
اور مجھے بولا اٹھا مجھ کو
میں چلتا ہوں تو
پل بھر میں مجھے کتنے پڑاؤ گھیر لیتے ہیں
کسی کی چھت گرے
آواز میرے دل پہ گرتی ہے
وہاں اک چوک تھا تیرے مرے ملنے
کا چور رستہ
وہاں اس چوک میں
اک دھند تھی
اک دھول تھی
اک بے یقینی تھی
میں پیچھے مڑ کے کس کو دیکھتا راہوں کے جنگل میں
کسی جنگل کے نقشے پر
کسی آباد بستی کی کرامت سے
کسی آوارگی کے موڑ پر
یا پھر کسی شکوے کے پنجرے میں
اسے میں نے بھلا ڈالا
اسے میں نے بھلا ڈالا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ملو ہم سے)