اور وہم مرا لایا ہے ویران سڑک پر
ہے دور تلک پھیلا ہوا شام کا منظر
پھر چپکے سے تُو آیا ہے ویران سڑک پر
اک جال سا کملائے ہوئے بیتے دنوں کا
تنہائی نے پھیلایا ہے ویران سڑک پر
اک یاد سی لہرائی ہے آنکھوں میں ہماری
اک پھول سا کملایا ہے ویران سڑک پر
اس راہ سے گزرے گا کوئی قافلہ شاید
جھنڈا کوئی لہرایا ہے ویران سڑک پر
لگتا ہے کوئی کھینچ کے لے آتا ہے تجھ کو
اکثر ہی تجھے پایا ہے ویران سڑک پر
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ہم اکیلے ہیں بہت)