اور اس پہ زمانہ ہے کہ چالاک بہت ہے
اب جانے تجھے دیکھ کے پہچان بھی پائے
یہ آنکھ جو اک عمر سے نمناک بہت ہے
تجھ کو تری تکبیر کی آگاہی مبارک
مجھ کو مرے کم ہونے کا ادراک بہت ہے
لگتا ہے یہاں عمر سے رویا نہیں کوئی
اس شہر میں برسات ہے کم خاک بہت ہے
اب آہی گئے ہو تو سنبھل کے ذرا رہنا
اس شہر میں رسم خس و خاشاک بہت ہے
بس تھوڑا بھرم ہی تھا جو باقی نہیں فرحت
دامن ہی سلامت تھا جو اب چاک بہت ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – تیرے کچھ خواب)