اب تک تو کوئی قول نبھایا نہیں تم نے
اک جھولا پڑا تھا مری خواہش کے شجر پر
اے وقت کبھی مڑ کے جھلایا نہیں تم نے
یہ بوجھ بھی ہوتے ہیں جدا عشق میں یارو
جو ہم نے اٹھایا وہ اٹھایا نہیں تم نے
اک عالم ویراں ہے زمانے میں مرا دل
اک اجڑا ہوا گھر جو بسایا نہیں تم نے
اب شام کے سائے نہیں آنکھوں میں تمہاری
میں کیسے کہوں مجھ کو بھلایا نہیں تم نے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اور تم آؤ)