اے عمر رواں پرسش ایام کہاں ہے

اے عمر رواں پرسش ایام کہاں ہے
جس میں ہو سکوں روح کو وہ شام کہاں ہے
ہر رستے کے آخر میں کئی رستے کھلے ہیں
اس راہ جنوں میں کوئی انجام کہاں ہے
اب جس سےجھجکتے ہو بہت لوگوں کے ڈر سے
پھر پوچھتے رہ جاؤ گے بدنام کہاں ہے
کیا اس نے ستاروں کی زبانی مجھے بھیجا
اے رات بتاؤ مرا پیغام کہاں ہے
اس شہر میں نفرت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
اس شہر میں ہم جیسوں کو آرام کہاں ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اک بار کہو تم میرے ہو)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *