ہم بھی تیری یاد سہارے سو جاتے ہیں
اے دل رات بھی بیت چلی ہے نیند بھی ہے
آ ہم دونوں درد کنارے سو جاتے ہیں
بے چینی گھٹتی ہے اور نہ تم آتے ہو
تھک کے آخر غم کے مارے سو جاتے ہیں
موت بھی کیسی ظالم نیند ہے اور پھر دیکھو
کیسے کیسے جان سے پیارے سو جاتے ہیں
اب تو اک مدت سے یہ معمول ہوا ہے
دشمن جاگتا ہے ہم سارے سو جاتے ہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – جدائی راستہ روکے کھڑی ہے)