میں کیا لکھوں؟
محبت کائناتی وسعتوں سے بھی
کہیں آگے کی لامحدود وسعت ہے
کسی چہرے کو آنکھوں اور خوابوں کی دعا پر نقش کرنا
اس کے بارے سوچنا
اور اپنی ہر خواہش کو بس اُس ذات تک محدود کر لینا
محبت ہے
ٹھٹھرتی آبشاروں میں بُجھی ٹھنڈی ہوا سہنا
شبوں کے گنبدوں میں گونجتی بے چینیوں کے درمیاں رہنا
ہر اک موسم کو اپنے اندرونی موسموں کی زد میں لے آنا
کبھی مِل کے کسی سے
بےخبر، آدھے سمندر تک سفر کرنا
کبھی تنہا کسی ساحل پہ آ کے دیر تک لہروں کو گننا
اور خلا میں دیکھتے رہنا محبت ہے
کسی کھوئے ہوئے کو غیرارادی طور پر
ہر اجنبی چہرے میں اکثر ڈھونڈتے رہنا
ہمیشہ بےخیالی میں
کتابوں ،چاند تاروں ،بادلوں پر
اس کے بارے جھلملاتی بات لکھ دینا
یا پھر لکھ کے مٹا دینا
کبھی رنگوں کی لہروں پر
اُسے بےصوت ہونٹوں سے صدا دینا
صدا کو بازگشت اور گونج میں ڈھل کر
خلاؤں سے تہی دامن پلٹتے دیکھنا
اور پھر صدا دینا
محبت ہے
میں کیا لکھوں ؟
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
بہت ہی روٹھ کر،ناراض ہو کر
ناپسندیدہ خیالوں ،نفرتوں کی اوٹ سے
یا مختلف حیلوں بہانوں سے
کسی کو جھانکتے رہنا
کسی کو سوچتے رہنا
وہ مانے یا نہ مانے بس اُسے لکھنا اُسے کہنا
محبت ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – شام کے بعد – اول)