ایک بے نام نظم

ایک بے نام نظم
خوشی کے ایک خواب سے نکلتا ہوں
دکھ کے ایک خواب میں آ پڑتا ہوں
یہیں کہیں
اپنی بہت ساری تعبیریں گم کر بیٹھا ہوں
تعبیریں چاہے اچھی نہ بھی ہوں
ان کو کھو دینا
یا گم کر بیٹھنا
یا حاصل نہ کر پانا
دکھ کے خواب سے بھی زیادہ دکھ دینے والی بات ہے
خوشی کے ہر موڑ پر یہی سمجھتا ہوں
میں دکھ سے بھاگ آیا ہوں
اگر تم خواب ہو تو خوشی کے بھی ہو
اور دکھ کے بھی
اور اگر تعبیر ہو
تو پھر مل کیوں گئے ہو
ہو سکتا ہے یہ میری خوش فہمی ہو
اور میں ملنے اور پا لینے کے
فرق کو سمجھ نہ پایا ہوں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دو بول محبت کے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *