ایک جنگل سے دوسرے جنگل تک

ایک جنگل سے دوسرے جنگل تک
شہر چھوڑنے سے کیا ہوتا ہے
نہ خوف پیچھا چھوڑتے ہیں
اور نہ بدنصیبی
نہ یادیں، نہ فریادیں
اور نہ بنیادیں
بے قراری تو خود اپنی بنیاد میں تھی
سو، ساتھ رہی
ایک شہر چھوڑا دوسرے میں آباد ہونے کی خواہش
ہانپتی کانپتی ایک ایک لمحے کا چہرہ تکنے لگی
پتہ چلا
ایک جنگل سے دوسرے جنگل میں آگیا ہوں
زیادہ بڑا اور زیادہ خوفناک جنگل
یہاں زیادہ مکّار
اور زیادہ عیّار درندے گھومتے پھر رہے تھے
بڑے ڈاکو، بڑے لٹیرے
دوست کوئی نہیں تھا
بے وفائی ہر طرف موجود تھی
کسی نے کہا
میرے ساتھ رہا، میں فارخ ہوں
کسی نے کہا
میں تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتا، میں فارغ نہیں ہوں
کسی نے کہا
تم حفاظت کر سکتے ہو، مجھے اپنے ساتھ رکھ لو
کسی نے کہا
میں تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتا، مجھے تمہاری بھی حفاظت کرنی پڑتی ہے
کسی نے کہا
میرے پاس چالاکی ہے، اگر تم خرید سکو
کسی نے کہا
تمنا بیچ دو
میں گھبرا گیا
میں نے سوچا
آنکھیں بند کر لوں
آنکھیں بند کر لوں
اور سمجھ لوں محفوظ ہو گیا ہوں
خواب بھی کتنے سنگ دل ہوتے ہیں
سنگ دل اور سچے
سچے اور ہمدرد
میں نے آنکھیں بند کیں
خوابوں نے اپنے دروازے کھولنے شروع کر دیے
کبھی کبھی آنکھیں کھل بھی جاتیں
اور کھلی کی کھلی رہ جاتیں
لیکن دروازے بند نہ ہوتے
میں نے دیکھا
ایک شہر ہے
نیم روشن
اور نیم تاریک
نیم اداس
اور نیم سوگوار
آدھی امیدیں،
آدھے یقین
اور آدھے ارادے
ہر طرف اپنا آدھا آدھا سفر طے کرتے پھر رہے ہیں
کبھی کسی آدھی ٹوٹی ہوئی سڑک پر
تو کبھی کسی آدھی تعمیر شدہ عمارت پر
کبھی کسی آدھے گھر میں
تو کبھی کسی آدھے انسان میں
انسان تو شاید آدھے بھی نہیں تھے
ایک شور،
ایک افراتفری اور ایک حرص
ہر کوئی ہر چمک دار شے کی طرف دوڑتا ہوا
اور سب سے پہلے جھپٹ لینے کی خواہش سے مغلوب
شاید یہ خواب نہیں تھا
سچ تھا
کھلی آنکھوں سے دیکھا ہوا سچ
اور میں اسے ماننا نہیں چاہتا تھا
میں نے دیکھا
ایک گروہ ہے
چار چار آنکھوں والے
اور سو سو ہاتھوں والے لوگوں کا گروہ
جن میں سے ہر ایک کے
کئی کئی پیٹ ہیں
لیکن سینے اور پیشانیاں نہیں ہیں
سینوں کی جگہ دلدل
اور پیشانیوں کی جگہ ٹیلے
میں نے دیکھا
گروہ ایک ہی ہے
حصے کئی ہیں
کئی حصوں میں بٹا ہوا
لیکن
خصلت اور آنکھوں میں لہراتی ہوئی ہوس
ایک ہی ہے
میں نے دیکھا
ان کے ہاتھوں میں بڑے بڑے نیزے ہیں
ان کے اپنے بڑھے ہوئے ناخنوں
اور دانتوں سے بنے ہوئے نیزے
اور وہ سب باری باری
کبھی شہر کے سینے کے عین درمیان میں گھونپ دیتے ہیں
اور کبھی پیٹھ میں
کبھی آنکھوں میں اتارتے ہیں
اور کبھی پیشانی میں
کبھی پیٹ کاٹ ڈالتے ہیں
اور کبھی بازو
جہاں جہاں گوشت نظر آتا ہے
جھپٹ پڑتے ہیں
اور نوچنا شروع کر دیتے ہیں
اپنے سو سو ہاتھوں سے
اور نوچ نوچ کے
اپنے پیٹوں میں بنی ہوئی بھٹیوں میں ڈالنا شروع کردیتے ہیں
شہر کو نوچتے جاتے ہیں
اور لوگوں کو تسلیاں دیتے جاتے ہیں
آدھے اور ادھورے لوگوں کو
پھر انہیں اکٹھا کرتے ہیں
اور کہتے ہیں
سب کے سب اپنی اپنی آنکھیں پوری طرح کھول دو
وہ آنکھیں کھولتے ہیں
اور یہ ان میں ریت ڈال دیتے ہیں
اورہ وہ چلّانا شروع کر دیتے ہیں
آدھے خوشی سے
آدھے دکھ سے
میں نے آنکھیں کھولنا چاہیں، تو کھل نہ سکیں
پتہ چلا، تھک گئی ہیں
پھر بند کرنا چاہیں، تو بند نہ ہو سکیں
پتہ چلا،
ہر طرف خون ہی خون بھر گیا ہے
میں نے اپنے دل کی طرف دیکھا
وہاں دل نہیں تھا
بس ایک زخم رہ گیا تھا
سدا بہار اور تازہ
پھر خواب بدل گیا
اور ایک بڑی دنیا میرے سامنے آگئی
اور ایک بڑا گروہ
اور زیادہ بڑے ناخنوں اور دانتوں والا
وہ اس جیسے کئی شہروں کو نوچ رہا رتھا
اور نوچ نوچ کے اپنی بھٹیوں میں ڈال رہا تھا
میرے صبر کی انتہا ہو گئی
میں اٹھا
اور سب سے پہلے نظر آنے والے
آدھے آدمی کا گریبان تھامنا چاہا
وہاں گریبان نہیں تھا
سیاہی اور کیچڑ تھا
میرا ہاتھ اس کالے اور مکروہ کیچڑ سے آلودہ ہو گیا
میرا ہاتھ آلودہ ہو گیا
تو میں چیخ اٹھا
چیختا رہا، چیختا رہا، چیختا رہا
اور میرے گرد
لوگ اکٹھے ہونے لگ گئے،
ہجوم
میں نے پوچھا
کیا تم میں سے کسی نے سرابی کو دیکھا ہے
کیا تم میں سے کوئی سرابی کو جانتا ہے
کیا تم میں سے کسی کے پاس سرابی ہے
کیا تم سرابی کے بارے میں سوچ سکتے ہو
سب خاموش تھے
اور میری دیوانگی بڑھتی گئی
اور ہر طرف سرخ خاموشی
اور زرد دھواں پھیلا ہوا تھا
اور صرف میری آواز گونج رہی تھی
سرابی، سرابی، سرابی
میں پوچھتا
خاموشی اور زیادہ گہری ہو جاتی
سناٹا اور زیادہ پھیل جاتا
سکوت اور زیادہ طاری ہو جاتا
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *