گھبرائے گھبرائے ہیں
جنگل بھی ڈر کا مارا
شہر کے پاس نہیں آتا
جنگل بھی اب شہروں سے
خوفزدہ ہو جاتے ہیں
مجبوری ہے گھر سے بھی
روز نکلنا پڑتا ہے
لوٹ کے آئیں کیا معلوم
وہ جو گھر سے نکل پڑے
آج سے یہ اعلان کیا
ہم تقدیر مخالف ہیں
جو کچھ سمجھ سے باہر ہے
خالق پر دھر دیتے ہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – عشق نرالا مذہب ہے)