بندہ کچھ ہمت تو کرے سہارے سو
پار اترنا ہو تو دریا ہی دریا
دور سے دیکھو تو دل ایک کنارے سو
وہ تو اس کی نیت کالی تھی ورنہ
ہم نے اک اک پل میں کیے اشارے سو
سو لوگوں کو دل دینا معمولی سی
ایک ہی شخص سے ہم نے تو دل ہارے سو
کونسے ایسے دور ہیں میرے جذبوں سے
تم بولو تو میری جان ستارے سو
جانے قبر بھی حصے میں آئے نہ آئے
اک چھوٹا سا آنگن ہے بٹوارے سو
فرحت عباس شاہ
(کتاب – جدائی راستہ روکے کھڑی ہے)