میں نے اب تک جتنی بھی جدائیاں سہی ہیں
اور جتنے بھی دلوں کو روگ لگائے ہیں
شاید میرے ظاہر سے ظاہر نہ ہوں
لیکن اگر کوئی ایسا ہے جو روح میں جھانک سکتا ہو
تو آئے اور دیکھے
کہ میری آنکھوں کے پیچھے کیسی اتھاہ تاریکیاں ہیں
اور میرے لبوں کے پیچھے کتنی گھنگھور خاموشیاں ہیں
اگر کوئی ایسا ہے جو من میں اتر سکتا ہو
تو آئے اور غور کرے
کہ میرے اندر جلی ہوئی بستیوں
اور اجڑے ہوئے شہروں کے سوا کچھ بھی باقی نہیں بچا
جہاں جہاں آنکھوں نے آنکھوں سے اقرار کئے
اور جہاں جہاں ہونٹوں نے ہونٹوں کو لمس پہنائے
وہاں وہاں اب صرف ہوا ہو گئی راکھ کے نشانات
اور کبھی نہ مندمل ہونے والے گھاؤ رہ گئے ہیں
فرحت عباس شاہ