بٹے ہوئے لوگوں کا کیا ہے
آدھے کہیں اور آدھے کہیں پر
آدھے دکھ اور آدھی خوشیاں
ہنستے ہنستے چبھ جاتے ہیں آنسو سینے میں
روتے روتے، ہچکی سی بندھ جاتی ہے تو
ایک مکمل رونا آدھا رہ جاتا ہے
خواب میں دیکھا
اس کا اجلا چاند اترا ہے عین ہتھیلی پر
آنکھ کھلی تو
جیون اور محبت کی آدھی ریکھائیں
جلی ہوئی تھیں
بٹے ہوئے لوگوں کا کیا ہے
آدھی روح لیے پھرتے ہیں
آدھی کہیں چھوڑ آتے ہیں
ایک گلی ہے
جس میں اک چھوٹا سا گھر ہے
گھر میں کتنے کمرے ہیں سب آدھے ہیں
کمرے میں اک آدھا بستر
نیند کو آدھا آدھا ڈستا رہتا ہے
آدھے سوتے آدھے جاگتے رہنے سے تو بہتر ہے
یہ رات ہمارا اپنا آپ ہی لے جائے
لیکن پورا
آدھی رات ہمیں لے جائے
لیکن پورا
آدھی رات ہمیں لے جائے
پورے کا پورا لے جائے اور کبھی واپس نہ آئے
اور ہم اپنا آدھا کمرہ آدھا بستر
اس کے آدھے کمرے اور آدھے بستر کے نام وراثت کر جائیں
بٹے ہوئے لوگوں کا کیا ہے
آدھا حاصل آدھی بخشش
آدھا کھونا آدھا پانا
آدھے ٹوٹے پھوٹے درد کی آدھی پھال بدن کے اندر آدھی باہر
آدھی دل میں
آدھی دل کے پار کہیں پر
جیون کے اس پار
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ملو ہم سے)