اور کچھ دیر مرے ساتھ چلو
اور مجھے تھام کے رکھو کچھ دیر
گو کسی طور مجھے عدم تحفظ کا نہیں ہے احساس
پھر بھی اک بچہ جو بیٹھا ہے مری ذات کی پر توں میں کہیں
تیرے پہلو میں سمٹنا چاہے
ہو سکے تو مجھے جھڑکو بھی شرارت پہ مری
گو شرارت مری عادت میں نہیں ہے شامل
پھر بھی کچھ دیر کو معصوم سا بن جانا بھلا لگتا ہے
اور کچھ دیر میرے ساتھ چلو
لے چلو انگلی پکڑ کر میری
اور مجھے چند کھلونے لے دو
گو کھلونوں کی نہیں عمر مری
پھر بھی کیا حرج ہے کچھ دیر بہل جانے میں
اور کچھ دیر میرے ساتھ چلو
اور کچھ دیر میرے ساتھ چلو
فرحت عباس شاہ