بنام عشق وغیرہ وکیل کوئی نہیں

بنام عشق وغیرہ وکیل کوئی نہیں
عدالتوں میں کھڑے ہیں اپیل کوئی نہیں
سبھی کی آنکھوں میں دل ہے، دعا نہیں کوئی
سبھی کے ہونٹوں پہ دم ہے، دلیل کوئی نہیں
مری نگاہ میں حدِّ نگاہ منزل ہے
مرے سفر میں کہیں سنگِ میل کوئی نہیں
کھلا پڑا ہے مِرا شہر دل لبِ صحرا
ہوائیں چور بہت ہیں فصیل کوئی نہیں
وہ اس کی زلف، فقط زلف ہے، گھٹا کیسی
وہ آنکھ ہی ہے، وہاں جھیل ویل کوئی نہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – سوال درد کا ہے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *