بسمل
کسے خط لکھیں
کون آئے گا
موت شریانوں میں دندناتی پھرتی ہے
خوف نے ریڑھ کی ہڈی میں گھر بنا لیا ہے
رات
کالی اور طویل
سیاہ اور نوکیلے بالوں میں ملفوف
سینوں پر رینگتی پھرتی ہے
کریہہ آواز میں قہقہہ لگاتا جبر
گردنوں پہ پنجے گاڑے ایستادہ
خط بھی نہیں لکھنے دیتا
مدد تسلی دیتی ہے
یہ بھی بتاتی ہے، تسلی جھوٹی ہے
فرحت عباس شاہ