بے چین فضاؤں کے اثر میں نہیں رہنا

بے چین فضاؤں کے اثر میں نہیں رہنا
آئندہ مجھے تیری نظر میں نہیں رہنا
اب روح کو ٹھہراؤ میں رہنا ہے کوئی دن
اب روح کو کچھ روز سفر میں نہیں رہنا
شاید میں بنا ہی نہیں گھر کے لیے فرحت
میں نے تو یہ سوچا ہے کہ گھر میں نہیں رہنا
مجھ کو یہ تذبذب کی فضا راس نہیں ہے
رہنا ہے تو پھر شہر کے ڈر میں نہیں رہنا
تم آؤ تو پھر کیوں نہ چھپیں اشک ہمارے
تاروں کو مری جان سحر میں نہیں رہنا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اداس اداس)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *