اضطراب
اکثر کچھ دنوں بعد
کوئی نہ کوئی ایسی رات آجاتی ہے
بطن میں منوں وزن بے چینی لئے
اس رات میں نے دیکھا
تم میرے اندر نہیں ہو
اور نہ میرے بستر پہ
میری یادداشت کا پچھلا دروازہ
اس دروازے کے بے خواب کواڑ
کسی آنے والی خلش سے خوفزدہ ہیں
بار بار اٹھ بیٹھتے ہیں
بار بار اٹھ کے چلنا شروع کر دیتے ہیں
تم نہیں آتے
اور دوسری کئی طرح کی لزرشیں آجاتی ہیں لرزشیں اور کپکپی
اور کیفیتیں، لمبی ٹانگوں والے کیکڑوں جیسی
تمہاری عمد موجودگی میں
اکثر کچھ دنوں بعد
ایسی کوئی نہ کئی رات آجاتی ہے
اور بے خواب کواڑ ایک دوسرے سے ٹکرا ٹکرا کے ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں
ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں
فرحت عباس شاہ