بے کیف و بے قرار نے سونے نہیں دیا

بے کیف و بے قرار نے سونے نہیں دیا
شب بھر دلِ فگار نے سونے نہیں دیا
بستی میں بے یقینی کا عالم تھا اس قدر
سورج کے انتظار نے سونے نہیں دیا
شب بھر رہا ہے گردشِ خوں میں پکارتا
شب بھر خیالِ یار نے سونے نہیں دیا
نیند آ گئی تھی ورنہ ہمیں بھی ترے بغیر
آنکھوں پہ اختیار نے سونے نہیں دیا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ہم جیسے آوارہ دل)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *