پھر رہے ہو کہاں؟
بھاگ جاؤ گے کب؟
ملنے آئے ہو کیوں واسطہ گم کیے؟
شہر کی اک گلی
اور گلی کے کنارے پہ اٹکا ہوا اک خلا
وہ گلی بھول آئے ہو جب سے
تو اب تک کسی گمشدہ چاپ نے تم کو ڈھونڈا نہیں
آنکھ کے اک کنارے سے ٹپکا ہوا کوئی دکھ
جو ہتھیلی کی زینت بنا اور وہیں مر گیا
تیری وابستگی بس یہیں تک ہی تھی اتنے انبوہ میں
وہ قدم
کہ جو اک بار بھی پڑ گیا عمر کے روئے نماک پر وقت کے چاک سے
اس قدم کے تلے زندگی اپنا جیون جلاتی رہی
اتنی صدیاں ہوئیں
وہ قدم
آج تک مڑ کے پچھلے قدم سے ملا ہی نہیں
تیرگی اپنے پس منظروں سے نکلتی ہوئی پیش منظر میں آئی
تو تم نے یہ جانا گلی کی گلی روشنی بن گئی
شہر کی اک گلی
آج گلیوں میں ہوتی تو یوں ہر سڑک راستہ دیتے دیتے بھٹکتی نہیں
تم یہاں آ کے ٹھٹھکے مگر اس قدر دیر سے
جیسے کوئی اجل سے گلے مل کے چلّا اٹھے اور آواز سننے سے محروم ہو
تم کہ مغموم ہو
اور معصوم بھی
پھر رہے ہو کہاں؟
بھاگ جاؤ گے کب؟
مِلنے آئے ہو کیوں واسطہ گم کیے؟
شہر کی اس گلی میں
فقط اب نئے لوگ ہی چل رہے ہیں بظاہر بِنا راستہ گم کیے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دکھ بولتے ہیں)