پھر کیا کوئی خوشی سے یا ڈر سے نکل پڑے

پھر کیا کوئی خوشی سے یا ڈر سے نکل پڑے
پنچھی جب اپنے آپ شجر سے نکل پڑے
میں نے کہا کہ میرا تو دشمن نہیں کوئی
کچھ لوگ میرے اپنے ہی گھر سے نکل پڑے
پھر دھوپ ہم کو کھَلنے لگی آگ کی طرح
پھر ابر چھائے ٹوٹ کے برسے، نکل پڑے
جن کو بڑے جتن سے دبایا تھا روح میں
وہ دکھ بھی میرے دیدہء تر سے نکل پڑے
یہ حادثہ بھی ہونا لکھا تھا کہ شہر میں
سیلاب میں بھی پانی کو ترسے، نکل پڑے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *