جانتا ہے مرا خدا جاناں
جانے کیا ہے کہ صبح ہوتے ہی
چل پڑی شام کی ہوا جاناں
ہم کو سچ بولنے کی فرحت جی
زندگی بھر ملی سزا جاناں
اب تو لگتا ہے جیسے آنکھوں پر
چھا گئی ہے کوئی گھٹا جاناں
تیری چاہت سے اب مرے اندر
جل پڑا ہے کوئی دیا جاناں
جو بھی ہونا ہے ہو محبت میں
اب تو جانے مری بلا جاناں
ایسی کیا تھی مری خطا جاناں
آپ بھی ہو گئے خفا جاناں
دشت ہے، شام ہے، اداسی ہے
کتنی بے چین ہے فضا جاناں
کون ہے جو بڑی اداسی سے
دے رہا ہے مجھے صدا جاناں
تیرے بارے میں اپنے آپ سے بھی
میں نے کچھ بھی نہیں کہا جاناں
ہم نے جتنی بھی کی وفا جاناں
حق بھلا کب ہوا ادا جاناں
عشق چھپتا ہے کب چھپانے سے
لاکھ تو اب اسے چھپا جاناں
فرحت عباس شاہ