پیار کے سمندر میں

پیار کے سمندر میں
بھید بھید رہتا ہے
پیار کے سمندر میں
ہر اترنے والے کو
کشیاں نہیں ملتیں
دور دور تک جاناں
دھوپ کی مسافت ہے
اور کہیں بھی پل بھر کو
دھوپ کے مسافر پر
سائباں نہیں کھلتے
اس عجب سمندر میں
عمرکی ریاضت کے
بعد ہم نے جانا ہے
جس طرح فضاؤں میں
اڑنے والے پنچھی پر
برس ہا برس میں بھی
آسماں نہیں کھلتے
بحرِ بیکراں میں بھی
بھید بھید رہتا ہے
رازداں نہیں کھلتے
بام و در نہیں ملتے
آستاں نہیں کھلتے
ہر اترنے والے کو
کشتیاں نہیں ملتیں
اور مل بھی جائیں تو
بادباں نہیں کھلتے
پیار کے سمندر میں
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *