کہ قدم قدم پہ عجیب مرنا ہے موت کا
ہمیں آرزوؤں پہ شک ہے دل کے نشیب میں
یہ وہی ہیں رخنے بنا بنا کے اترتیاں
کوئی اسم ہو کوئی آزمودہ طلسم ہو
جسے پڑھ کے پھونک دوں دنیا بھر کی مصیبتیں
مری بے قراری عبث ہے صورتحال پر
یہاں روزمرہ ہے حادثات کی ہاوہو
وہ جو رنگ تھے مرے سنگ تھے، وہ جو جنگ تھی
یہ حیا ہے جو، یہ وفا ہے جو، یہ فنا ہے جو
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ابھی خواب ہے)