تم جو ہوتے تو ہمیں کتنا سہارا ہوتا

تم جو ہوتے تو ہمیں کتنا سہارا ہوتا
ہم نے اوروں کو نہ یوں دکھ میں پکارا ہوتا
جتنی شدت سے میں وابستہ تھا تم سے فرحت
کس طرح میرا ترے بعد گزارا ہوتا
مجھ کو یہ سوچ ہی کافی ہے جلانے کے لیے
میں نہ ہوتا تو کوئی اور تمہارا ہوتا
اور ہم بیٹھ کے خاموشی سے روئے جاتے
شام ہوتی، کسی دریا کا کنارا ہوتا
دل سے دیکھی نہیں جاتی تھی خموشی گھر کی
کس طرح اجڑا ہوا شہر گوارا ہوتا
چاند ہوتا کہ مری جان ستارہ ہوتا
ہم نے اک تیرے سوا دل سے اتارا ہوتا
تو نے سوچا ہے کبھی کتنا محبت کے بغیر
روح فرسا دل ویراں کا نظارا ہوتا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اداس اداس)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *