آ سمندر
آ گلے مل رات سے
ہے ترے شایانِ شاں
کچھ بول
چُپ رہنے سے بہتر ہے
کوئی تو بات نکلے گی کسی بھی بات سے
آ مرے کہسار میرے ساتھ چل
میرا دل حاضر ہے سنگت کو تری
جل اگر ممکن ہے تھوڑی دیر بھی
ایک پل بھی اک صدی ہے
ہجر کی آتش میں
دکھ کی دھوپ میں
آ مرے صحرا مری جاں میں اتر
آ تجھے بھی پیاس سے کردوں شناسا عشق میں
تو پھرے دریا بہ دریا اور پیاسا عشق میں
پھر تو اپنی ریت اپنے سر میں ڈالے
رو پڑے دیتے دلاسہ عشق میں
آ مری بستی
مری ہستی کے ویرانے میں تُو
اک ذرا پاؤں تو رکھ ان دلدلوں میں اور
انجانے میں تُو
لوگ پوچھیں تجھ سے اک اک موڑ پر
آ گئی ہے کس کے بہکانے میں تُو
کتنی بے مایہ ہے افسانے میں تُو
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دکھ بولتے ہیں)