مجھے اپنے جیسا لگا تو درد کا در کھلا
بڑی دھوپ تھی کسی ملنے والے کے صحن میں
مجھے سائبان بنا کے لوگ چلے گئے
مجھے حسن و عشق میں باندھ کر مری روح نے
کہیں آنے جانے کا چھوڑ کر ہی نہیں دیا
وہ ترا جمال کہ شرمسار ہے حُسن بھی
وہ مرا کمالِ نظر کہ کچھ بھی نہیں رہا
کوئی احترام بھی تھا کہیں پسِ دشمنی
میں اسی لیے کبھی کھُل کے وار نہ کر سکا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – محبت گمشدہ میری)