ترا پیکر شبِ برباد میں ہے
بہانہ ہے جدائی تو وگرنہ
اداسی تو کہیں بنیاد میں ہے
کسی برباد بستی میں نہیں ہے
جو ویرانی دلِ آباد میں ہے
فراموشی بہت حیراں ہے اس پر
تو اب تک کیوں ہماری یاد میں ہے
عجب سا اطمیناں ہے پنچھیوں میں
عجب سی بے کلی صیاد میں ہے
فرحت عباس شاہ