گلے مل
آ گلے مل اے مری بادِ صبا
مندمل ہوں زخم سینے کے
گھٹن آزاد ہو جائے
گھٹن آزاد ہو اور دل کے ویرانے میں کوئی شہر سا آباد ہو جائے
کہیں بے رونقی کوئی کھڑی ہے
تو وہیں برباد ہو جائے
گلے مِل
آ گلے مِل اے مری شبنم
میرے تپتے سُلگتے تن بدن کی
آگ بجھ جائے
جہاں بھی روح میں
جو جو الاؤ سا دہکتا ہے
بس اُس کا بھاگ بجھ جائے
جو دھوکا دے رہا ہے
ہر گھڑی
سطح سمندر پر جزیرے کا
وہ سارا جھاگ بجھ جائے
گلے مِل
آ گلے مل خواب میں
یہ بھی اضافہ ہو کتابِ وصل میں
یہ بھی اضافہ ہو کتابِ وصل میں
احساس کے گرداب میں
مجھ سے گلے مل
اے گلِ لالہ مرے صحراؤں میں کھل
چوم لے تا کہ ترے دل کو مرا بے چین دل
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دکھ بولتے ہیں)