تیری خاطر ہم بھی تو بدنام ہوئے
آؤ نہ آؤ تم مرضی کے مالک ہو
ہم تو ہوئے غلام تمہارے نام ہوئے
دھیرے دھیرے کاٹ رہے ہیں تنہائی
ہم نا ہوئے اداسی کی کوئی شام ہوئے
روئے، تم کو یاد کیا اور شعر لکھے
چپکے چپکے اچھے خاصے کام ہوئے
یہ تو تاجوں تختوں والے ہوتے ہیں
کٹیا والے شاہ بھی کبھی غلام ہوئے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – جدائی راستہ روکے کھڑی ہے)