بات سے بات نکل آتی ہے
کھول کے دیکھتا ہوں دل اپنا
درد کی رات نکل آتی ہے
آنکھ سے ایک گہر مانگیں تو
پوری برسات نکل آتی ہے
میں ذرا عجز سے پیش آتا ہوں
اس کی اوقات نکل آتی ہے
وقت کا جادو عجب جادو ہے
جیت سے مات نکل آتی ہے
روز ان آنکھوں کی نم گلیوں سے
کوئی بارات نکل آتی ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – چاند پر زور نہیں)