کچھ لوگوں کو دیس بدر کر دیا جاتا ہے
کچھ لوگ خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر لیتے ہیں
اپنی اپنی مجبوری
اور صورت حالات کی بات ہے
مجھے پتہ ہے اگر مجھے میری دھرتی کی سرحدوں سے نکال دیا جائے
تو میری ساری کی ساری جڑیں یہیں رہ جائیں گی
اور ہستی تو ہوتی ہی وہیں ہے
جہاں جڑیں ہوتی ہیں
اور اگر میں اپنا وجود اٹھا کر کہیں بھاگ جاؤں
تو کہاں بھاگ جاؤں
اس مٹی کے علاوہ پوری کائنات موجود ہے
لیکن اس پوری کائنات میں وطن کہیں اور موجود نہیں ہے
انسان ہوں یا پودے
بار بار نہیں اگا کرتے
اور انسانوں کو تو جڑوں سمیت اکھاڑ کے کہیں منتقل بھی نہیں کیا جا سکتا
اگرچہ پیڑوں اور پودوں کو کیا جا سکتا ہے
انسان کی جڑیں بھی عجیب ہوتی ہیں
جہاں اندر گئیں تو پھر اتر گئیں
لیکن جلا وطنی کی ایک اور بھی قسم ہوتی ہے
خواہشوں اور خوابوں کی جلاوطنی
ذات اور روح کی جلا وطنی
میرا جسم یہیں ہے
میری روح یہاں نہیں ہے
میری روح کو وطن سے نکال دیا گیا ہے
اور وہ ماری ماری پھر رہی ہے
بھٹک رہی ہے
اپنی دھرتی، اپنی مٹی اور اپنے وطن کی تلاش میں
میری روح میری جڑوں کی طرح
اپنے وطن، دھرتی اور مٹی کے دھوکے میں پیوست نہیں وہ سکی
اور ٹوٹ کر دور جا گری ہے
کسی تکلیف دہ اور عجیب خلا میں
اور اصلی وطن کی تلاش میں نا بیناؤں کی طرح
ہاتھ پاؤں مارے جا رہی ہے
میں نے سوچا ہے
اب میں اعلان کر دوں
جیسے لوگ خود ساختہ جلا وطنی کا اعلان کرتے ہیں
اور ملک چھوڑ جاتے ہیں
میں نے سوچا ہے
اب میں بھی اعلان کر دوں
مجھے یہاں موجود نہ سمجھا جائے
میرے وجود کی یہاں موجودگی
میری جڑوں کی مجبوری ہے
لیکن میری روح جلا وطن ہے
اور اپنے اس وطن پر آبادی کی خواہش میں تڑپ رہی ہے
جس کے لیے ہزاروں معصوم اور محبت کرنے والی جانوں نے قربانی دی تھی
میں اعلان کرتا ہوں
میرے وجود کی یہاں موجودگی کے باوجود
مجھے جلا وطن سمجھا جائے
آج سے میں اپنے آپ کو جلا وطن قرار دیتا ہوں
فرحت عباس شاہ